دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ہندوستان، نہ صرف اپنی وسیع آبادی بلکہ اپنے تنوع، ثقافتی رنگا رنگی، اور وفاقی نظام کی وجہ سے منفرد ہے۔ 28 ریاستوں اور 8 یونین ٹریٹریز پر مشتمل یہ ملک ایک ایسا جمہوری تجربہ ہے جو دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں ہر ریاست کے اپنے مسائل، ترجیحات، اور جمہوری تقاضے ہیں، جو ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کو مضبوط بناتے ہیں۔
لیکن جب "ایک قوم، ایک انتخاب" (One Nation, One Election) جیسی تجویز سامنے آتی ہے، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ہندوستان کے تنوع، اس کی جمہوری روح، اور آئینی اصولوں کے لیے فائدہ مند ہے یا یہ ان پر منفی اثر ڈال سکتی ہے؟
حکومت کا دعویٰ اور اصل چیلنجز: حکومت کے مطابق، "ایک قوم، ایک انتخاب" کے تحت لوک سبھا، ریاستی اسمبلیوں، اور مقامی انتخابات ایک ساتھ کرانے سے انتخابی اخراجات میں کمی، بار بار انتخابات کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی و حکومتی جمود کا خاتمہ، اور عوامی مسائل پر زیادہ توجہ دی جا سکے گی۔
لیکن کیا یہ واقعی ممکن ہے؟ ہندوستان کی سیاسی و انتظامی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس تجویز پر عمل درآمد کے لیے آئین کے کئی آرٹیکلز میں ترامیم درکار ہوں گی، جن میں آرٹیکل 83 (لوک سبھا کی مدت)، آرٹیکل 172 (ریاستی اسمبلیوں کی مدت)، آرٹیکل 85 اور 174 (پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے اجلاسوں کی تواریخ) شامل ہیں۔مزید برآں، اگر کسی اسمبلی کی مدت قبل از وقت ختم ہو جائے تو کیا پورے ملک میں دوبارہ انتخابات ہوں گے؟ یا کیا وہ ریاست اپنے مسائل کے حل کے لیے نمائندگی سے محروم رہ جائے گی؟ یہ سوالات نہ صرف آئینی بلکہ عملی مشکلات بھی پیدا کرتے ہیں۔
وفاقی نظام کے لیے خطرہ: ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کی بنیاد یہ ہے کہ ہر ریاست کو اپنی ترجیحات اور مسائل کے مطابق فیصلے کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ "ایک قوم، ایک انتخاب" کی تجویز اس خودمختاری کو متاثر کر سکتی ہے اور مرکز کی طاقت میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق، اگر یہ تجویز نافذ ہو گئی تو ریاستی انتخابات قومی موضوعات کے دباؤ میں آ جائیں گے، جس سے ریاستی مسائل پر توجہ کم ہو سکتی ہے۔ علاقائی جماعتیں، جو ریاستی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں، قومی جماعتوں کے مقابلے میں کمزور پڑ سکتی ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں، جیسے کانگریس ،ڈی ایم کے، شیو سینا، اور ترنمول کانگریس، نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسے وفاقی جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تجویز ریاستوں کی انفرادیت کو ختم کرنے اور مرکز کی گرفت مضبوط کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس کیلئے عملی دشواریوں کا بھی سامنا ہوسکتا ہے ،جیسے انتخابی عمل کو ایک ساتھ انجام دینا ایک مشکل اور مہنگا کام ہے۔اس کے لیے لاکھوں اضافی الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (EVMs) کی ضرورت ہوگی، جنہیں نہ صرف خریدنا بلکہ محفوظ رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔مزید یہ کہ، اگر پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ ہوں تو مقامی مسائل کو قومی سطح کے مسائل کے نیچے دبا دیا جائے گا۔ اس سے عوامی نمائندگی کا معیار متاثر ہو سکتا ہے، کیونکہ عوام کے مسائل ان کے ووٹ دینے کے فیصلے پر کم اثر ڈالیں گے۔ناقدین کے مطابق، یہ تجویز صرف انتخابی اصلاحات نہیں بلکہ ایک سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اگر ریاستی اور قومی انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں تو قومی جماعتوں، خصوصاً حکمراں جماعت کو زیادہ فائدہ ہوگا۔علاقائی جماعتیں، جو ریاستی مسائل پر توجہ دیتی ہیں، قومی جماعتوں کے اثر و رسوخ کے نیچے دب سکتی ہیں۔ یہ عمل جمہوریت کے تنوع کو متاثر کر سکتا ہے اور سیاست میں یکسانیت پیدا کر سکتا ہے، جو ہندوستان کے متنوع ڈھانچے کے خلاف ہے۔دنیا کے کئی ممالک نے یکساں انتخابات کا نظام اپنایا ہے، لیکن ان کے سماجی، جغرافیائی، اور سیاسی حالات ہندوستان سے بہت مختلف ہیں۔ ہندوستان میں یہ نظام نافذ کرنا نہ صرف آئینی بلکہ سماجی طور پر بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
جمہوریت کی روشنی کو بجھنے نہ دیں
"جمہوریت کے دیے کو، مصلحتوں کی ہوا نہ دے،
یہ چراغ سب کا ہے، اس کو بجھا نہ دے۔"
یہ اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جمہوریت کا حسن اس کے تنوع اور عوام کی صحیح نمائندگی میں ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں اس کے وفاقی اصولوں، عوامی جذبات، اور آئینی بنیادوں کا احترام کرنا ہوگا۔"ایک قوم، ایک انتخاب" کی تجویز کا مقصد بظاہر اصلاحات اور ترقی ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کے نفاذ سے پہلے اس کے اثرات کا مکمل جائزہ لیا جائے تاکہ جمہوریت کے اس چراغ کی روشنی مدھم نہ ہو۔
(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں. اس کالم پر شائع مضامین کے خیالات سے ادارہ ساحل آن لائن کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)